لاہور(اظہار الحق واحد سے )کے ٹو سر کرنے والے پاکستانی کوہ پیمامحمد علی سدپارہ
سرد موسم میں ساتھوں کے ہمراہ کے ٹو سر کرنے کے لئے مضبوط اور سخت جان محمد علی سدپارہ عین کے ٹو سر کرنے کے قریب تھے یا وہ سر کرنے کے بعد واپس لوٹ رہے تھے انہیں حادثہ پیش آیا جس کے بعد لاپتہ ہو چکے ہیں ۔
محمد علی سدپارہ سرد موسم میی سانتہائی خراب موسم جس میں برفانی طوفان اور سخت برف باری کے باعث ناممکن مشن کو چیلنج کرتے ہوئے دنیا بھر کے مہم جوئوں کو حیرت میں مبتلا کرتے کے ٹو سر کرنے نکلے تھے جنہیں آخری مقام پر نکلتے ہوئے کسی آفت نے ان لیا اور وہ اپنے کیمپ سے رابطہ کھو گئے ۔
وہ اور ان کے ساتھی ابھی تک لا پتہ ہیں اور انہیں تلاش کرنے کے لیے پاک آرمی کے ہیلی کاپٹروں نے آپریشن بھی کیا تھا مگر مایوس واپس لوٹنا پڑا ۔7ہزار فٹ سے زائد کی بلندی پر ہیلی کاپٹروں کا ریسکیو مشن بھی ایک خاص وقت تک ہی جاری رکھا جا سکتا تھا ۔
دنیا بھر سے محمد علی سدپارہ اور ان کے ساتھیوں کی جلد صحیح سلامت واپسی کے لیے دعا گو ہیں اور پاکستان بھر میں ان کی سلامتی کے لیے دعائیں مانگی جارہی ہیں۔ ان کے بیٹے ساجد علی پارہ بھی پانچ فروری یوم یکجہتی کشمیر پر خاص ریکارڈ بنانے والے تھے تاہم والد کے حادثے کے بعد وہ کے ٹو بیس کیمپ واپس لوٹ آئے تھے ۔ آج جب وہ سکردو پہنچے تو انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امید ہے کہ میرے والد کے ٹو سر کرنے کے بعد حادثے کا شکار ہوئے ہوں گے ۔ انہوں نے کہا کہ اب ریسکیو آپریشن کی بجائے اب ڈیڈ باڈیز کی تلاش شروع کرنی چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ والد سے رابط ٹوٹنے پر تشویش ہوئی تھی ۔
کے ٹو ڈیڈ زون کیا ہے ؟
اس بارے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اردو نے دنیا بھر کے اہم اور چوٹی کے مہم جوئی کرنے والوں سے موجودگی سوالات کئے ہیں جو ہم آپ کے ساتھ شیئر کر رہے ہیں ۔اس چوٹی کو سر کرنے کی جستجو کرنے والے ہر چار میں سے ایک کوہ پیما کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ کے ٹو پر اموات کی شرح 29 فیصد ہے جبکہ اس کے برعکس دنیا کی سب سے بلند چوٹی ایورسٹ پر یہی شرح چار فیصد ہے۔
کے اس دوسرے بلند ترین پہاڑ کے ٹو کو سردیوں میں فتح کرنے کی کوشش کرنے والے پاکستانی کوہ پیما محمد علی سدپارہ سمیت تین کوہ پیماؤں کا جمعہ کے روز سے بیس کیمپ، ٹیم اور اہل خانہ سے رابطہ منقطع ہے اور سوموار کے روز ان کی تلاش میں جانے والے آرمی ہیلی کاپٹروں نے 7000 میٹر کی بلندی تک پرواز کی لیکن ابھی تک تینوں کوہ ہیماؤں کا کوئی سراغ نہیں مل سکا ہے۔جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ وہ دو کوہ پیماؤں کو بچانے کے لیے کیوں ڈیتھ زون میں واپس گئے اور کیوں 8000 میٹر سے زیادہ بلندی پر موت کی گھاٹی میں 90 گھنٹے کا وقت گزارا؟.
ان کا جواب تھا ’میں کے ٹو پر خوش قسمت تھا، آپ جانتے ہیں۔ میں خوش قسمت تھا۔‘کیا محمد علی سد پارہ اور ان کے ساتھی بھی اتنے ہی خوش قمسمت ہو سکتے ہیں؟ اس سوال کا جواب تو آنے والے چند گھنٹے ہی دیں گے لیکن ہماری دعا ہے کہ پاکستان کے یہ صفِ اول کے کوہ پیما اپنے ساتھیوں سمیت زندہ سلامت واپس لوٹ آئیں ۔تاہم آج ان کے بیٹے ساجد علی سدپارہ نے اپنے والد اور دیگر تین مہم جوئوں کی ڈیڈ باڈیز کی تلاش کے لئے آپریشن کا مطالبہ کیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہو گا کہ حکومت اس ریسکیو آپریشن کو کیسے جاری رکھتی ہے ۔